ایمان ہے قالِ مُصطَفائی
قرآن ہے حالِ مصطفائی
اللہ کی سلطنت کا دولہا
نقشِ تِمْثالِ مصطفائی
کُل سے بالا رُسل سے اَعلیٰ
اِجْلال و جلالِ مصطفائی
اَصحاب نُجومِ رہنما ہیں
کشتی ہے آلِ مصطفائی
اِدبار سے تو مجھے بچالے
پیارے اِقبالِ مصطفائی
مُرْسَل مُشتاقِ حق ہیں اور حق
مشتاق وصالِ مصطفائی
خواہانِ وصالِ کِبریا ہیں
جُویانِ جمالِ مصطفائی
محبوب و محب کی مِلک ہے ایک
کَونَین ہیں مالِ مصطفائی
اللہ نہ چھوٹے دستِ دل سے
دامانِ خیالِ مصطفائی
ہیں تیرے سپرد سب امیدیں
اے جُود و نَوالِ مصطفائی
روشن کر قبر بیکسوں کی
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
اندھیر ہے بے تِرے مِرا گھر
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
مجھ کو شبِ غم ڈرا رہی ہے
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
آنکھوں میں چمک کے دل میں آجا
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
میری شبِ تار دن بنا دے
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
چمکا دے نصیبِ بد نصیباں
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
قَزّاق ہیں سر پہ راہ گم ہے
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
چھایا آنکھوں تلے اندھیرا
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
دل سرد ہے اپنی لو لگا دے
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
گھنگھورگھٹائیں غم کی چھائیں
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
بھٹکا ہوں تو راستہ بتا جا
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
فریاد دباتی ہے سیاہی
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
میرے دلِ مردہ کو جلا دے
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
آنکھیں تری راہ تک رہی ہیں
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
دکھ میں ہیں اندھیری رات والے
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
تاریک ہے رات غم زدوں کی
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
ہو دونوں جہاں میں منھ اُجالا
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
تاریکیِ گُور سے بچانا
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
پُر نور ہے تجھ سے بزمِ عالَم
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
ہم تِیرہ دلوں پہ بھی کرم کر
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
لِلّٰہ ادھر بھی کوئی پھیرا
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
تقدیر چمک اٹھے رضاؔ کی
اے شمعِ جمالِ مصطفائی
Tag: Kalam e Imam
-
ایمان ہے قالِ مُصطَفائی
-
اے شافعِ تردامناں وَے چارۂ دردِ نِہاں
اے شافعِ تردامناں وَے چارۂ دردِ نِہاں
جانِ دل و روحِ رواں یعنی شہِ عرش آستاں
اے مَسْنَدَت عرشِ بَریں وَے خادمَت رُوحِ اَمیں
مِہرِ فلک ماہِ زمیں شاہِ جہاں زیبِ جِناں
اے مرہمِ زخمِ جگر یاقوت لب والا گُہر
غیرت دِہِ شمس و قمر رشکِ گُل و جانِ جہاں
اے جانِ مَن جانانِ من ہم درد ہم دَرمانِ من
دینِ من و ایمانِ من اَمن و اَمانِ اُمَّتاں
اے مُقْتَدا شمعِ ہُدیٰ نورِ خدا ظلمت زِدا
مِہرَت فدا ماہَت گدا نُورَت جدا از اِین و آں
عینِ کرم زینِ حَرم ماہِ قدم اَنجمِ خَدم
والا حشم عالی ہمم زیرِ قدم صَد لامَکاں
آئینہ ہا حیرانِ تو شمس و قمر جُویانِ تو
سَیَّارَہا قربانِ تو شَمعَت فدا پروانہ ساں
گل مست شُد از بوئے تو بلبل فدائے روئے تو
سُنبُل نِثار موئے تو طوطی بَیادَت نَغمہ خواں
بادِ صبا جُویانِ تو باغِ خدا از آنِ تو
بالا بَلاگَردانِ تو شاخِ چمن سَرْوِ چَماں
یعقوب گریانَت شُدہ ایوب حیرانَت شدہ
صالح حُدِّی خوانَت شدہ اے یَکّہ تازِ لامَکاں
خِضرَسْت گُویاں اَلْعَطَشموسیٰ بَاَیْمَنگَشْتہ غَش
یعقوب شُد بِینائیَش دَرْیادَت اے جانِ جہاں
در ہجرِ توسوزاں دِلم پارہ جگر از رنج و غم
صد داغ سینہ از اَلم و زِ چشم دریائے رواں
بہرِ خدا مرہم بنہ از کارِ مَن بِکُشا گِرہ
فریادْرَس دادے بِدہ دَسْتے بَما اُفتادگاں
مولا زِ پا اُفتادَہ اَم دارَم شہا چشمِ کرم
مِہْرِ عرب ماہِ عجم رَحْمے بحالِ بَندگاں
شکر بِدہ گو یک سخن تَلخ اَست بر مَن جانِ من
بارِ نقاب از رُخ فِگَن بہرِ رضاؔئے خَسْتہ جاں -
اے شافعِ اُمَم شہِ ذِی جاہ لے خبر
اے شافعِ اُمَم شہِ ذِی جاہ لے خبر
لِلّٰہ لے خبر مِری لِلّٰہ لے خبر
دریا کا جوش، ناؤ نہ بیڑا نہ ناخدا
میں ڈُوبا، تُو کہاں ہے مِرے شاہ لے خبر
منزل کڑی ہے رات اندھیری میں نَابَلَدْ
اے خِضر لے خبر مری اے ماہ لے خبر
پہنچے پہنچنے والے تو منزل مگر شہا
اُن کی جو تھک کے بیٹھے سرِ راہ لے خبر
جنگل درندوں کا ہے میں بے یار شب قریب
گھیرے ہیں چار سَمْت سے بدخواہ لے خبر
منزل نئی عزیز جُدا لوگ ناشناس
ٹُوٹا ہے کوہِ غم میں پرِکاہ لے خبر
وہ سختیاں سوال کی وہ صورتیں مُہِیْب
اے غمزدوں کے حال سے آگاہ لے خبر
مُجرم کو بارگاہِ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تِری راہ لے خبر
اہلِ عمل کو اُن کے عمل کام آئیں گے
میرا ہے کون تیرے سِوا آہ لے خبر
پُر خار راہ، برہنہ پا، تِشنہ آب دور
مَولیٰ پڑی ہے آفتِ جانکاہ لے خبر
باہَر زبانیں پیاس سے ہیں ، آفتاب گرم
کوثر کے شاہ کَثَّرَہُ اللہ لے خبر
مانا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضاؔ
تیرا ہی تو ہے بندۂ درگاہ لے خبر -
الاماں قہر ہے اے غوث وہ تِیکھا تیرا
الاماں قہر ہے اے غوث وہ تِیکھا تیرا
مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا
بادلوں سے کہیں رُکتی ہے کڑکتی بجلی
ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اُٹھتا ہے جو تیغا تیرا
عکس کا دیکھ کے منھ اور بپھَر جاتا ہے
چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا
کوہ سَرمُکھ ہو تو اِک وار میں دو پرَ کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا
اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالِف تیرے
چاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا
عَقْل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
یہ گھٹائیں اسے منظور بڑھانا تیرا
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تِرا ذِکر ہے اُونچا تیرا
مِٹ گئے مِٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اَعدا تیرے
نہ مِٹا ہے نہ مِٹے گا کبھی چرچا تیرا
تُو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھےا للّٰہ تعالیٰ تیرا
سَمِّ قاتل ہے خدا کی قَسَم اُن کا اِنکار
مُنکرِ فَضْلِ حُضُور آہ یہ لکھا تیرا
میر ے سَیَّاف کے خنجر سے تجھے باک نہیں
چِیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیرا
ابنِ زَہر اسے ترے دل میں ہیں یہ زہر بھرے
بَل بے اَو مُنکرِ بے باک یہ زَہرا تیرا
بازِ اَ شْہَب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اُڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
شاخ پر بیٹھ کے جڑ کاٹنے کی فِکْر میں ہے
کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجرا تیرا
حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے
ارے میں خُوب سمجھتا ہوں مُعَمَّا تیرا
سگِ دَر قہر سے دیکھے تو بِکھرتا ہے ابھی
بند بندِ بدن اے رُو ِبہ دنیا تیرا
غَرض آقا سے کروں عَرْض کہ تیری ہے پناہ
بندہ مجبور ہے خاطِرپہ ہے قبضہ تیرا
حُکْم نافِذ ہے تِرا خامَہ تِرا سیف تِری
دم میں جو چاہے کرے دَور ہے شاہا تیرا
جس کو للکار دے آتا ہو تو اُلٹا پھر جائے
جس کو چَمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا
کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دِیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبت کا خزینہ تیرا
دِل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دُزدِ رَجیم
اُلٹے ہی پاؤں پِھرے دیکھ کے طُغرا تیرا
نزع میں ، گَور میں ، ِمیزاں پہ، سر ِپُل پہ کہیں
نہ چُھٹے ہاتھ سے دامانِ مُعلّٰی تیرا
دُھوپ محشر کی وہ جاں سَوز قِیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مِرے سر پہ ہے پلّا تیرا
بہجت اس سر کی ہے جو ’’ بَہْجَۃُ الْاَسْرَار‘‘ میں ہے
کہ فَلک وار مُریدوں پہ ہے سایہ تیرا
اے رضاؔ چیست غم ار جملہ جہاں دُشمنِ تُست
کردَہ اَم ما مَنِ خود قِبلَۂ حاجاتے را -
اُٹھا دو پردہ دِکھا دو چہرہ کہ نُورِ باری حجاب میں ہے
اُٹھا دو پردہ دِکھا دو چہرہ کہ نُورِ باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہورہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما
غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے
جلی جلی بُو سے اُس کی پیدا ہے سوزش عشقِ چشم والا
کبابِ آہُو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے
اُنہیں کی بُو مایۂ سمن ہے اُنہیں کا جلوہ چمن چمن ہے
اُنہیں سے گلشن مہک رہے ہیں اُنہیں کی رنگت گلاب میں ہے
تِری جلو میں ہے ماہِ طیبہ ہلال ہر مرگ و زندگی کا!
حیات جاں کار کاب میں ہے ممات اعدا کا ڈاب میں ہے
سیہ لباسانِ دار دنیا و سبز پوشانِ عرش اعلیٰ
ہر اِک ہے ان کے کرم کا پیاسا یہ فیض اُن کی جناب میں ہے
وہ گل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے
جلی ہے سوز جگر سے جاں تک ہے طالب جلوۂ مُبارک
دکھا دو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے
کھڑے ہیں مُنْکَر نَکِیْر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور!
بتا دو آکر مِرے پیمبر کہ سخت مشکِل جواب میں ہے
خدائے قہّار ہے غضب پر کُھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر
بچا لو آکر شفیعِ محشر تمہَارا بندہ عذاب میں ہے
کریم ایسا مِلا کہ جس کے کُھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے
بتاؤ اے مفلِسو! کہ پھر کیوں تمہارا دل اِضطراب میں ہے
گنہ کی تاریکیاں یہ چھائیں اُمنڈ کے کالی گھٹائیں آئیں
خدا کے خورشید مہر فرما کہ ذرّہ بس اِضطراب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیمِ بے قدر کو نہ شرما
تُو اور رضاؔ سے حساب لینا رضاؔ بھی کوئی حساب میں ہے -
اللہ اللہ کے نبی سے
اللہ اللہ کے نبی سے
فریاد ہے نفس کی بدی سے
دِن بھر کھیلوں میں خاک اُڑائی
لاج آئی نہ ذرّوں کی ہنسی سے
شب بھر سونے ہی سے غرض تھی
تاروں نے ہزار دانت پیسے
ایمان پہ مَوت بہتر او نفس
تیری ناپاک زندگی سے
او شہد نمائے زہر دَر جام
گُم جاؤں کدھر تِری بدی سے
گہرے پیارے پرانے دِل سوز
گزرا میں تیری دوستی سے
تجھ سے جو اٹھائے میں نے صَدمے
ایسے نہ مِلے کبھی کسِی سے
اُف رے خودکام بے مروّت
پڑتا ہے کام آدمی سے
تُو نے ہی کیا خدا سے نادِم
تُو نے ہی کیا خجل نبی سے
کیسے آقا کا حکم ٹالا
ہم مر مِٹے تیری خودسری سے
آتی نہ تھی جب بدی بھی تجھ کو
ہم جانتے ہیں تجھے جبھی سے
حد کے ظالم سِتم کے کٹر
پتھر شرمائیں تیرے جی سے
ہم خاک میں مل چکے ہیں کب کے
نکلا نہ غبار تیرے جی سے
ہے ظالم! میں نباہوں تجھ سے
اللہ بچائے اس گھڑی سے
جو تم کو نہ جانتا ہو حضرت
چالیں چلیے اس اَجنبی سے
اللہ کے سَامنے وہ گن تھے
یاروں میں کیسے متقی سے
رہزن نے لُوٹ لی کمائی
فریاد ہے خضر ہاشمی سے
اللہ کنوئیں میں خود گِرا ہوں
اپنی نالِش کروں تجھی سے
ہیں پُشتِ پناہ غوثِ اعظم
کیوں ڈرتے ہو تم رضاؔ کسی سے -
اُن کی مہک نے دِل کے غُنچے کِھلا دئیے ہیں
اُن کی مہک نے دِل کے غُنچے کِھلا دئیے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں کُوچے بَسا دیے ہیں
جب آگئی ہیں جوشِ رحمت پہ اُن کی آنکھیں
جلتے بُجھا دیے ہیں روتے ہنسا دیے ہیں
اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا
تم نے تو چلتے پِھرتے مُردے جِلا دیے ہیں
ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آگئے ہیں سب غم بُھلا دیے ہیں
ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اُٹھتے ہوں گے
اب تو غنی کے دَر پر بِستر جما دیے ہیں
اَسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قُدسیوں کے
ہونے لگی سَلامی پرچَم جھکا دیے ہیں
آنے دو یا ڈُبو دو اب تو تمہاری جانِب
کَشتی تمہیں پہ چھوڑی لنگر اُٹھا دیے ہیں
دُولہا سے اِتنا کہہ دو پیارے سُواری روکو
مشکل میں ہیں براتی پُرخار بادیے ہیں
اللہ کیا جہنّم اب بھی نہ سَرد ہوگا
رو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیے ہیں
میرے کریم سے گر قطرہ کِسی نے مانگا
دریا بہا دیے ہیں دُر بے بہا دیے ہیں
مُلکِ سُخَن کی شاہی تم کو رضاؔ مُسلَّم
جس سَمْت آ گئے ہو سِکّے بٹھا دیے ہیں -
اہلِ صِراط رُوحِ امیں کو خبر کریں
اہلِ صِراط رُوحِ امیں کو خبر کریں
جاتی ہے اُمّتِ نبوی فرش پر کریں
اِن فتنہ ہائے حشر سے کہدو حَذَرْ کریں
نازوں کے پالے آتے ہیں رہ سے گزر کریں
بد ہیں تو آپ کے ہیں بھلے ہیں تو آپ کے
ٹکڑوں سے تو یَہاں کے پلے رُخ کِدھر کریں
سرکار ہم کمینوں کے اطوار پر نہ جائیں
آقا حضور اپنے کرم پر نظر کریں
ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لئے
آنکھوں میں آئیں سر پہ رہیں دِل میں گھر کریں
جالوں پہ جال پڑ گئے لِلّٰہ وقت ہے
مشکل کشائی آپ کے ناخن اگر کریں
منزل کڑی ہے شان تبسّم کرم کرے
تاروں کی چھاؤں نور کے تڑکے سفر کریں
کلکِ رضا ؔ ہے خنجرِ خونخوار برق بار
اعدا سے کہدو خیر منائیں نہ شر کریں -
آنکھیں رو رو کے سجانے والے
آنکھیں رو رو کے سُجانے والے
جانے والے نہیں آنے والے
کوئی دن میں یہ سرا اوجڑ ہے
ارے او چھاؤنی چھانے والے
ذبح ہوتے ہیں وطن سے بچھڑے
دیس کیوں گاتے ہیں گانے والے
ارے بد فَال بُری ہوتی ہے
دیس کا جنگلا سُنانے والے
سُن لیں اَعدا میں بگڑنے کا نہیں
وہ سلامت ہیں بنانے والے
آنکھیں کچھ کہتی ہیں تجھ سے پیغام
او درِ یار کے جانے والے
پھر نہ کروٹ لی مدینہ کی طرف
ارے چل جُھوٹے بہانے والے
نفس میں خاک ہوا تو نہ مِٹا
ہے مِری جان کے کھانے والے
جیتے کیا دیکھ کے ہیں اے حورو!
طیبہ سے خُلد میں آنے والے
نِیم جلوے میں دو عَالم گلزار
واہ وا رنگ جمانے والے
حُسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سُنا
کہتے ہیں اگلے زمانے والے
وہی دُھوم ان کی ہے ما شآء اللہ
مِٹ گئے آپ مِٹانے والے
لبِ سیراب کا صَدقہ پانی
اے لگی دل کی بُجھانے والے
ساتھ لے لو مجھے میں مجرم ہوں
راہ میں پڑتے ہیں تھانے والے
ہو گیا دَھک سے کلیجَا میرا
ہائے رُخصت کی سُنانے والے
خلق تو کیا کہ ہیں خالق کو عزیز
کچھ عجب بھاتے ہیں بھانے والے
کشتۂ دشت حرم جنّت کی
کھڑکیاں اپنے سِرہانے والے
کیوں رضاؔ آج گلی سُونی ہے
اُٹھ مِرے دُھوم مچانے والے -
Wo Suey Lalazaar Phirtay Haen
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیںجو ترے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یونہی خوار پھرتے ہیںآہ کل عیش تو کیے ہم نے
آج وہ بے قرار پھرتے ہیںان کے ایما سے دونوں باگوں پر
خیلِ لیل و نہار پھرتے ہیںہر چراغِ مزار پر قدسی
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیںاس گلی کا گدا ہوں میں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیںجان ہیں ، جان کیا نظر آئے
کیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیںپھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیںلاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر
لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیںوردیاں بولتے ہیں ہرکارے
پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیںرکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم
مَول کے عیب دار پھرتے ہیںہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں ، چار پھرتے ہیںبائیں رستے نہ جا مسافر سُن
مال ہے راہ مار پھرتے ہیںجاگ سنسان بن ہے ، رات آئی
گرگ بہرِ شکار پھرتے ہیںنفس یہ کوئی چال ہے ظالم
کیسے خاصے بِجار پھرتے ہیںکوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے شیدا ہزار پھرتے ہیں__!!!خاتم النبیین محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ❤❤