Naat Valley

Tag: Kalam e Aala HAzrat

  • Suntay Haen K Mehsahr Maen

    سُنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رَسائی ہے
    گر اُن کی رَسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے

    مچلا ہے کہ رحمت نے اُمید بندھائی ہے
    کیا بات تِری مجرم کیا بات بَنائی ہے

    سب نے صف محشر میں لَلکار دیا ہم کو
    اے بے کسوں کے آقا اب تیری دُہائی ہے

    یُوں تو سب اُنہیں کا ہے پَر دل کی اگر پوچھو
    یہ ٹُوٹے ہوئے دِل ہی خاص اُن کی کمائی ہے

    زائر گئے بھی کب کے دِن ڈَھلنے پہ ہے پیارے
    اُٹھ میرے اَکیلے چل کیا دیر لگائی ہے

    بازارِ عمل میں تو سودا نہ بنا اپنا
    سرکار کرم تجھ میں عیبی کی سمَائی ہے

    گرتے ہووں کو مژدہ سجدے میں گِرے مولیٰ
    رو رو کے شفاعت کی تمہید اُٹھائی ہے

    اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اُٹھ
    دَم گھٹنے لگا ظالِم کیا دُھونی رَمائی ہے

    مجرم کو نہ شرماؤ احباب کفن ڈَھک دو
    مُنھ دیکھ کے کیا ہو گا پردے میں بھلائی ہے

    اب آپ ہی سنبھالیں تو کام اپنے سنبھل جائیں
    ہم نے تو کمائی سب کھیلوں میں گنوائی ہے

    اے عشق تِرے صَدقے جلنے سے چُھٹے سَستے
    جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے

    حرص و ہوسِ بَد سے دل تُو بھی سِتَم کر لے
    تُو ہی نہیں بے گانہ دُنیا ہی پَرائی ہے

    ہم دِل جلے ہیں کس کے ہٹ فتنوں کے پر کالے
    کیوں پُھونک دُوں اِک اُف سے کیا آگ لگائی ہے

    طیبہ نہ سہی اَفضل مَکّہ ہی بڑا زاہِد
    ہم عِشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے

    مَطْلَع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضاؔ واللہ
    صرف اُن کی رَسائی ہے صرف اُن کی رَسائی ہے

    🍃ثـواب حـاصـل کـرنـے کـی نـیـت سـے زیـادہ سـے زیـادہ شــئـیـر کیجیئے🍃

  • Imaan hay Qaal e Mustafai صلی اللہ علیہ وسلم

    ایمان ہے قال مصطفائی ﷺ
    قرآن ہے حال مصطفائیﷺ

    اللہ کی سلطنت کا دولہا
    نقش تمثال مصطفائیﷺ

    کل سے بالا رسل سے اعلی
    اجلال و جلال مصطفائیﷺ

    ادبار سے تو مجھے بچا لے
    پیارے اقبال مصطفائیﷺ

    مرسل مشتاق حق ہیں اور حق
    مشتاق وصال مصطفائیﷺ

    خواہان وصال کبریا ہے
    جویان جمال مصطفائیﷺ

    محبوب و محب کی ملک ہے اک
    کونین ہیں مال مصطفائیﷺ

    اللہ نہ چھوٹے دست دل سے
    دامان خیال مصطفائیﷺ

    ہیں تیرے سپرد سب امیدیں
    اے جودو نوال مصطفائیﷺ

    روشن کر قبر بیکسوں کی
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    اندھیر ہے بے تیرے میرا گھر
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    مجھ کو شب غم ڈرا رہی ہے
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    آنکھوں میں چمک کے دل میں آجا
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    مری شب تار دن بنا دے
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    چمکا دے نصیب بد نصیباں
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    قزاق ہیں سر پہ راہ گم ہے
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    چھایا آنکھوں تلے اندھیرا
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    دل سرد ہے اپنی لو لگا دے
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    گھنگور گھٹائیں غم کی چھائیں
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    بھٹکا ہوں تو راستہ بتا جا
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    فریاد دباتی ہے سیاہی
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    میرے دل مردہ کو جلا دے
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    آنکھیں تیری راہ تک رہی ہیں
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    دکھ میں ہیں اندھیری رات والے
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    تاریک ہے رات غمزدوں کی
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    تاریکی گور سے بچانا مجھ کو
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    پُر نور ہے تجھ سے بزم عالم
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    ہم تیرہ دلوں پہ بھی کرم کر
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    للہ ادھر بھی کوئی پھیرا
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    تقدیر چمک اُٹھے رضا کی
    اے شمع جمال مصطفائیﷺ

    صلی اللہُ علیہ والہ واصحاب وبارک وسلم علیہ

  • Wasf Rukh Unka (PBUH) kia kartay Haen

    وصفِ رُخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس وضُحٰے کرتے ہیں
    اُن کی ہم مَدْح و ثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں

    ماہِ شق گَشْتہ کی صورت دیکھو کانپ کر مہر کی رَجعت دیکھو
    مصطفیٰ پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں

    تُو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چُھپ گئے تیری ضِیا میں تارے
    اَنبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نُور لیا کرتے ہیں

    اے بَلابے خِرَدیِ کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں اِنکار
    کہ گواہی ہو گر اُس کو دَرکار بے زباں بول اُٹھا کرتے ہیں

    اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم
    سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گِرا کرتے ہیں

    رِفعت ذِکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
    مرغِ فردَوس پس اَز حمدِ خدا تیری ہی مَدْح و ثنا کرتے ہیں

    اُنگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری
    جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں

    ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد
    اِسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عِنا کرتے ہیں

    آستیں رحمتِ عالم الٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے
    گِرنے والوں کو چَہِ دوزخ سے صاف الگ کِھینچ لیا کرتے ہیں

    جب صبا آتی ہے طیبہ سے اِدھر کِھلکِھلا پڑتی ہیں کلیاں یکسر
    پھول جامہ سے نِکل کر باہر رُخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں

    تُو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہرآں
    تیرے مولیٰ سے شہِ عرش ایواں تیری دولت کی دُعا کرتے ہیں

    جس کے جلوے سے اُحد ہے تاباں معدنِ نور ہے اس کا داماں
    ہم بھی اس چاند پہ ہو کر قرباں دلِ سنگیں کی جِلا کرتے ہیں

    کیوں نہ زیبا ہو تجھے تا جوری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
    ملک و جن و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں

    ٹُوٹ پڑتی ہیں بلائیں جن پر جن کو ملتا نہیں کوئی یاور
    ہر طرف سے وہ پُر ارماں پھر کر اُن کے دامن میں چُھپا کرتے ہیں

    لب پر آجاتا ہے جب نامِ جناب منھ میں گُھل جاتا ہے شہدِ نایاب
    وجد میں ہو کے ہم اے جاں بیتاب اپنے لب چُوم لیا کرتے ہیں

    لب پہ کس منہ سے غمِ الفت لائیں کیا بلا دِل ہے الم جس کا سنائیں
    ہم تو ان کے کفِ پا پر مٹ جائیں اُن کے دَرپر جو مٹا کرتے ہیں

    اپنے دِل کا ہے اُنہیں سے آرام سونپے ہیں اپنے اُنہیں کو سَب کام
    لو لگی ہے کہ اب اس دَر کے غلام چارۂ دردِ رضا کرتے ہیں

  • Subho Taiba Maen Hui Bat-ta hay bara Noor ka

    صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
    صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

    باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
    مستِ بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا

    بارہویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نور کا
    بارہ بُرجوں سے جھکا ایک اِک سِتارہ نور کا

    ان کے قَصْرِ قَدْر سے خُلْد ایک کمرہ نور کا
    سِدْرَہ پائیں باغ میں ننھا سا پودا نور کا

    عرش بھی فِردوس بھی اس شاہِ والا نور کا
    یہ مُثَمَّن بُرج وہ مُشکُوئے اَعلیٰ نور کا

    آئی بدعت چھائی ظلمت رنگ بدلا نور کا
    ماہِ سُنّت مِہْرِ طَلْعت لے لے بدلا نور کا

    تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نور کا
    بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا

    میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا
    نور دن دُونا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا

    تیری ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا
    رُخ ہے قبلہ نور کا اَبرو ہے کعبہ نور کا

    پُشت پر ڈَھلکا سرِ انور سے شَمْلَہ نور کا
    دیکھیں موسیٰ طُور سے اُترا صَحِیفہ نور کا

    تاج والے دیکھ کر تیرا عِمامہ نور کا
    سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور

    بِینیِ پُرنور پر رَخشاں ہے بُکّہ نور کا
    ہے لِوَاءُ الْحَمْد پر اُڑتا پھَریرا نور کا

    مُصْحَفِ عارِض پہ ہے خطِ شَفِیْعَہ نور کا
    لو سِیَہ کارو مبارک ہو قَبَالَہ نور کا

    آبِ زر بنتا ہے عارِض پر پسینہ نور کا
    مُصْحَفِ اِعجاز پر چڑھتا ہے سونا نور کا

    پیچ کرتا ہے فدا ہونے کو لَمْعَہ نور کا
    گردِ سر پھرنے کو بنتا ہے عِمامَہ نور کا

    ہیبت عارض سے تھراتا ہے شعلہ نور کا
    کَفشِ پا پر گر کے بن جاتا ہے گُپّھا نور کا

    شمع دل مِشکوٰۃ تن سینہ زُجا جَہ نور کا
    تیری صورت کے لئے آیا ہے سُورہ نور کا

    مَیل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پُتلا نور کا
    ہے گلے میں آج تک کورا ہی کُرتا نور کا

    تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا
    نور نے پایا تِرے سجدے سے سِیْما نور کا

    تو ہے سایہ نور کا ہر عُضْو ٹکڑا نور کا
    سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا

    کیا بَنا نامِ خدا اَسرا کا دولہا نور کا
    سر پہ سہرا نور کا بَر میں شَہانہ نور کا

    بزمِ وَحْدَت میں مزا ہو گا دوبالا نور کا
    ملنے شمعِ طور سے جاتا ہے اِکّا نور کا

    وصفِ رخ میں گاتی ہیں حوریں ترانہ نور کا
    قدرتی بِینوں میں کیا بجتا ہے لَہْرا نور کا

    یہ کتابِ کُن میں آیا طُرفہ آیَہ نور کا
    غیرِ قائل کچھ نہ سمجھا کوئی معنیٰ نور کا

    دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا
    مَنْ رَاٰی کیسا یہ آئینہ دکھایا نور کا

    صبح کر دی کفر کی سچا تھا مُژدہ نور کا
    شام ہی سے تھا شبِ تِیرہ کو دھڑکا نور کا

    پڑتی ہے نوری بھرن امڈا ہے دریا نور کا
    سر جھکا اے کِشْتِ کفر آتا ہے اَہلا نور کا

    ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا
    تم کو دیکھا ہو گیا ٹھنڈا کلیجا نور کا

    نَسْخ اَدیاں کر کے خود قبضہ بٹھایا نور کا
    تاجْور نے کر لیا کچا علاقہ نور کا

    جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا
    نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا

    بھیک لے سرکار سے لا جلد کاسہ نور کا
    ماہِ نو طیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا

    دیکھ ان کے ہوتے نازیبا ہے دعویٰ نور کا
    مِہْر لکھ دے یاں کے ذرّوں کو مُچَلْکا نور کا

    یاں بھی داغِ سجدۂ طَیبہ ہے تَمغا نور کا
    اے قمر کیا تیرے ہی ماتھے ہے ٹِیکا نور کا

    شمع ساں ایک ایک پروانہ ہے اس با نور کا
    نورِ حق سے لو لگائے دل میں رشتہ نور کا

    اَنجمن والے ہیں اَنجم بَزم حلقہ نور کا
    چاند پر تاروں کے جھرمَٹ سے ہے ہالہ نور کا

    تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
    تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا

    نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا
    ہو مبارک تم کو ذُو النُّوْرَیْن جوڑا نور کا

    کس کے پردے نے کیا آئینہ اندھا نور کا
    مانگتا پھرتا ہے آنکھیں ہر نگینہ نور کا

    اب کہاں وہ تابِشیں کیسا وہ تڑکا نور کا
    مِہْر نے چھپ کر کیا خاصا دُھنْدَلْکا نور کا

    تم مُقابِل تھے تو پہروں چاند بڑھتا نور کا
    تم سے چھٹ کر منھ نکل آیا ذرا سا نور کا

    قبرِ انور کہیے یا قصرِ مُعلّٰے نور کا
    چَرخِ اَطلَس یا کوئی سادہ سا قُبّہ نور کا

    آنکھ مِل سکتی نہیں در پر ہے پہرا نور کا
    تاب ہے بے حکم پَر مارے پرندہ نور کا

    نَزع میں لوٹے گا خاکِ در پہ شیدا نور کا
    مَر کے اوڑھے گی عَروسِ جاں دوپٹا نور کا

    تابِ مِہرِ حشر سے چونکے نہ کُشْتہ نور کا
    بوندیاں رحمت کی دینے آئیں چھینٹا نور کا

    وضْعِ واضع میں تِری صورت ہے معنی نور کا
    یوں مَجازاً چاہیں جس کو کہہ دیں کلمہ نور کا

    اَنبیا اَجزا ہیں تو بالکل ہے جملہ نور کا
    اس علاقے سے ہے اُن پر نام سچا نور کا

    یہ جو مِہر و مَہ پہ ہے اِطلاق آتا نور کا
    بھیک تیرے نام کی ہے اِستِعارَہ نور کا

    سُرمَگیں آنکھیں حَریمِ حق کے وہ مُشکِیں غَزال
    ہے فضائے لامکاں تک جن کا رَمنا نور کا

    تابِ حُسنِ گرم سے کھل جائیں گے دل کے کَنول
    نو بہاریں لائے گا گرمی کا جھلکا نور کا

    ذرّے مِہرِ قُدس تک تیرے تَوَسُّط سے گیے
    حدِّ اَوسَط نے کیا صُغریٰ کو کُبریٰ نور کا

    سبزۂ گَردوں جھکا تھا بہرِ پا بوسِ بُراق
    پھر نہ سیدھا ہو سکا کھایا وہ کوڑا نور کا

    تابِ سم سے چوندھیا کر چاند اُنھیں قدموں پھرا
    ہنس کے بجلی نے کہا دیکھا چھلاوا نور کا

    دیدِ نقشِ سُم کو نکلی سات پَردوں سے نگاہ
    پُتلیاں بولیں چلو آیا تماشا نور کا

    عکسِ سم نے چاند سُورج کو لگائے چار چاند
    پڑگیا سِیم و زرِ گَردوں پہ سکہ نور کا

    چاند جھک جاتا جِدھر اُنگلی اٹھاتے مَہد میں
    کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا

    ایک سینہ تک مُشابہ اک وہاں سے پاؤں تک
    حُسنِ سِبطَین ان کے جاموں میں ہے نِیْما نور کا

    صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عِیاں
    خط تَواَم میں لکھا ہے یہ دو۲ وَرقہ نور کا

    کٓ گیسو ٰ ہ دَہن یٰ ابرو آنکھیں عٓ صٓ
    کٓھٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نور کا

    اے رضاؔ یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
    ہوگئی میری غَزل بڑھ کر قصیدہ نور کا