حُسنِ حبیب ﷺ
اردو پنجابی کلام کا مجموعہ
پیر سیّد ناصِر حسین چشتی سیالوی
نوریہ رضویہ پبلیکیشنز
(Click to Download)
حُسنِ حبیب ﷺ
اردو پنجابی کلام کا مجموعہ
پیر سیّد ناصِر حسین چشتی سیالوی
نوریہ رضویہ پبلیکیشنز
(Click to Download)
واہ کیا جود و کرم ہے شاہ بطحا تیرا
نیہں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا
فیض ہے یا شہ تسنیم نرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تجسس میں دریا تیرا
اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑہ تیرا
اصفیا چلتے ہیں سر وہ ہے رستا تیرا
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا ! عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
آسماں خوان، زمین خوان، زمانہ مہماں
صاحب خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب ومحب میں نہیں میرا تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
بحر سائل کا ہوں سائل نہ کنوئیں کا پیاسا
خود بجھا جائے کلیجا مرا چھینٹا تیرا
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف
تیرے دامن میں شھپے چور انوکھا تیرا
آنکھیں ٹھندی ہوں ، جگر تازے ہوں جانیں سیراب
سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا (صلی اللہ علیہ وسلم)
دل عبث خوف سے پتا سا اڑا جاتا ہے
پلہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسا تیرا (صلی اللہ علیہ وسلم)
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
مفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی
اب عمل پوچھتے ہیں ہائے نکما تیرا
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
خوار و بیمار و خطا وار و گنہ گار ہوں میں
رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا
میری تقدیر بری ہو بھلی کر دے کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا
تو جو چاہے تو ابھی میل میرے دل کے دھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا
کس کا منہ تکئے، کہاں جائے، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا
تو نے اسلام دیا تو نے جماعت میں لیا
تو کریم اب کوئی پھرتا ہے عطئیہ تیرا
موت سنتا ہوں ستم تلخ ے زہرابہ ناب
کون لادے مجھے تلووں کا غسالہ تیرا
دور کیا جانئیے بد کار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا
تیرے صدقے مجھے اک بوند بہت ہے تیری
جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا
حرم وطیبہ و بغداد جدھر کچے نگاہ
حرم و طیبہ ع بغداد جدھر کچے نگاہ
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو پرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
(صلی اللہ علیہ وسلم)
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مستِ بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
بارہویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ بُرجوں سے جھکا ایک اِک سِتارہ نور کا
ان کے قَصْرِ قَدْر سے خُلْد ایک کمرہ نور کا
سِدْرَہ پائیں باغ میں ننھا سا پودا نور کا
عرش بھی فِردوس بھی اس شاہِ والا نور کا
یہ مُثَمَّن بُرج وہ مُشکُوئے اَعلیٰ نور کا
آئی بدعت چھائی ظلمت رنگ بدلا نور کا
ماہِ سُنّت مِہْرِ طَلْعت لے لے بدلا نور کا
تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا
میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا
نور دن دُونا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا
تیری ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا
رُخ ہے قبلہ نور کا اَبرو ہے کعبہ نور کا
پُشت پر ڈَھلکا سرِ انور سے شَمْلَہ نور کا
دیکھیں موسیٰ طُور سے اُترا صَحِیفہ نور کا
تاج والے دیکھ کر تیرا عِمامہ نور کا
سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور
بِینیِ پُرنور پر رَخشاں ہے بُکّہ نور کا
ہے لِوَاءُ الْحَمْد پر اُڑتا پھَریرا نور کا
مُصْحَفِ عارِض پہ ہے خطِ شَفِیْعَہ نور کا
لو سِیَہ کارو مبارک ہو قَبَالَہ نور کا
آبِ زر بنتا ہے عارِض پر پسینہ نور کا
مُصْحَفِ اِعجاز پر چڑھتا ہے سونا نور کا
پیچ کرتا ہے فدا ہونے کو لَمْعَہ نور کا
گردِ سر پھرنے کو بنتا ہے عِمامَہ نور کا
ہیبت عارض سے تھراتا ہے شعلہ نور کا
کَفشِ پا پر گر کے بن جاتا ہے گُپّھا نور کا
شمع دل مِشکوٰۃ تن سینہ زُجا جَہ نور کا
تیری صورت کے لئے آیا ہے سُورہ نور کا
مَیل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پُتلا نور کا
ہے گلے میں آج تک کورا ہی کُرتا نور کا
تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا
نور نے پایا تِرے سجدے سے سِیْما نور کا
تو ہے سایہ نور کا ہر عُضْو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
کیا بَنا نامِ خدا اَسرا کا دولہا نور کا
سر پہ سہرا نور کا بَر میں شَہانہ نور کا
بزمِ وَحْدَت میں مزا ہو گا دوبالا نور کا
ملنے شمعِ طور سے جاتا ہے اِکّا نور کا
وصفِ رخ میں گاتی ہیں حوریں ترانہ نور کا
قدرتی بِینوں میں کیا بجتا ہے لَہْرا نور کا
یہ کتابِ کُن میں آیا طُرفہ آیَہ نور کا
غیرِ قائل کچھ نہ سمجھا کوئی معنیٰ نور کا
دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا
مَنْ رَاٰی کیسا یہ آئینہ دکھایا نور کا
صبح کر دی کفر کی سچا تھا مُژدہ نور کا
شام ہی سے تھا شبِ تِیرہ کو دھڑکا نور کا
پڑتی ہے نوری بھرن امڈا ہے دریا نور کا
سر جھکا اے کِشْتِ کفر آتا ہے اَہلا نور کا
ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا
تم کو دیکھا ہو گیا ٹھنڈا کلیجا نور کا
نَسْخ اَدیاں کر کے خود قبضہ بٹھایا نور کا
تاجْور نے کر لیا کچا علاقہ نور کا
جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا
بھیک لے سرکار سے لا جلد کاسہ نور کا
ماہِ نو طیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا
دیکھ ان کے ہوتے نازیبا ہے دعویٰ نور کا
مِہْر لکھ دے یاں کے ذرّوں کو مُچَلْکا نور کا
یاں بھی داغِ سجدۂ طَیبہ ہے تَمغا نور کا
اے قمر کیا تیرے ہی ماتھے ہے ٹِیکا نور کا
شمع ساں ایک ایک پروانہ ہے اس با نور کا
نورِ حق سے لو لگائے دل میں رشتہ نور کا
اَنجمن والے ہیں اَنجم بَزم حلقہ نور کا
چاند پر تاروں کے جھرمَٹ سے ہے ہالہ نور کا
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا
نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذُو النُّوْرَیْن جوڑا نور کا
کس کے پردے نے کیا آئینہ اندھا نور کا
مانگتا پھرتا ہے آنکھیں ہر نگینہ نور کا
اب کہاں وہ تابِشیں کیسا وہ تڑکا نور کا
مِہْر نے چھپ کر کیا خاصا دُھنْدَلْکا نور کا
تم مُقابِل تھے تو پہروں چاند بڑھتا نور کا
تم سے چھٹ کر منھ نکل آیا ذرا سا نور کا
قبرِ انور کہیے یا قصرِ مُعلّٰے نور کا
چَرخِ اَطلَس یا کوئی سادہ سا قُبّہ نور کا
آنکھ مِل سکتی نہیں در پر ہے پہرا نور کا
تاب ہے بے حکم پَر مارے پرندہ نور کا
نَزع میں لوٹے گا خاکِ در پہ شیدا نور کا
مَر کے اوڑھے گی عَروسِ جاں دوپٹا نور کا
تابِ مِہرِ حشر سے چونکے نہ کُشْتہ نور کا
بوندیاں رحمت کی دینے آئیں چھینٹا نور کا
وضْعِ واضع میں تِری صورت ہے معنی نور کا
یوں مَجازاً چاہیں جس کو کہہ دیں کلمہ نور کا
اَنبیا اَجزا ہیں تو بالکل ہے جملہ نور کا
اس علاقے سے ہے اُن پر نام سچا نور کا
یہ جو مِہر و مَہ پہ ہے اِطلاق آتا نور کا
بھیک تیرے نام کی ہے اِستِعارَہ نور کا
سُرمَگیں آنکھیں حَریمِ حق کے وہ مُشکِیں غَزال
ہے فضائے لامکاں تک جن کا رَمنا نور کا
تابِ حُسنِ گرم سے کھل جائیں گے دل کے کَنول
نو بہاریں لائے گا گرمی کا جھلکا نور کا
ذرّے مِہرِ قُدس تک تیرے تَوَسُّط سے گیے
حدِّ اَوسَط نے کیا صُغریٰ کو کُبریٰ نور کا
سبزۂ گَردوں جھکا تھا بہرِ پا بوسِ بُراق
پھر نہ سیدھا ہو سکا کھایا وہ کوڑا نور کا
تابِ سم سے چوندھیا کر چاند اُنھیں قدموں پھرا
ہنس کے بجلی نے کہا دیکھا چھلاوا نور کا
دیدِ نقشِ سُم کو نکلی سات پَردوں سے نگاہ
پُتلیاں بولیں چلو آیا تماشا نور کا
عکسِ سم نے چاند سُورج کو لگائے چار چاند
پڑگیا سِیم و زرِ گَردوں پہ سکہ نور کا
چاند جھک جاتا جِدھر اُنگلی اٹھاتے مَہد میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
ایک سینہ تک مُشابہ اک وہاں سے پاؤں تک
حُسنِ سِبطَین ان کے جاموں میں ہے نِیْما نور کا
صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عِیاں
خط تَواَم میں لکھا ہے یہ دو۲ وَرقہ نور کا
کٓ گیسو ٰ ہ دَہن یٰ ابرو آنکھیں عٓ صٓ
کٓھٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نور کا
اے رضاؔ یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہوگئی میری غَزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
دساں کی میں مصطفٰے دی کڈی سوہنی شان اے
آپ دی تعریف وچ سارا ای قرآن اے
پڑھ کے تو ویکھ جیہڑا مرضی سپارہ
قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
کیندی اے حلیمہ مکھ ویکھ لجپال دا
لبھ کے لے آواں کتھوں سونڑدا ترے نال دا
چودھویں دا چن تے عرشاں دا تارا
قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
کر کے اشارا سوہنا سورج نوں موڑدا
آپےچن توڑدا تے آئپےچن جوڑ دا
بگڑی بناوے میرے نبی دا اشارا
قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
دیندے نے گواہی ذرّے ذرّے کوہِ طوردے
ویکھ دے نصیباں والے جلوے حضوردے
آمِنہ دا چن تے حلیمہ دا دلارا
قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا
کالیاں زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا
نصیب چمکے ہیں فرشیوں کے کہ عرش کے چاند آرہے ہیں
جھلک سے جن کی فلک ہے روشن وہ شمس تشریف لا رہے ہیں
زمانہ پلٹا ہے رُت بھی بدلی فلک پہ چھائی ہوئی ہے بدلی
تمام جنگل بھرے ہیں جل تھل ہرے چمن لہلہا رہے تھے
ہیں وجد میں آج ڈالیاں کیوں یہ رقص پتوں کو کیوں ہے شاید
بہار آئی یہ مژدہ لائی کہ حق کے محبوب آرہے ہیں
خوشی میں سب کی کھلی ہیں باچھیں رچی ہے شادی مچی ہے دھومیں
چرند ادھر کھلکھلا رہے ہیں پرند ادھر چہچہا رہے ہیں
نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
شبِ ولادت میں سب مسلماں نہ کیوں کریں جان و مال قرباں
ابو لہب جیسے سخت کافر خوشی میں جب فیض پا رہے ہیں
زمانہ بھر کا یہ قاعدہ ہے کہ جس کا کھانا اسی کا گانا
تو نعمتیں جن کی کھا رہے ہیں انہیں کے گیت ہم بھی گا رہے ہیں
حبیبِ حق ہیں خدا کی نعمت بِنِعْمَۃ رَبِّکَ فَحَدِّثْ
خدا کے فرمان پر عمل ہے جو بزمِ مولا سجا رہے ہیں
تَبارک اللہ حکومت انکی زمیں تو کیا شے ہے آسماں پر
کیا اشارے سے چاند ٹکڑے چھپا ہوا خور بُلا رہے ہیں
میں تیرے صدقے زمینِ طیبہ فدا نہ کیوں تجھ پر ہو زمانہ
کہ جن کی خاطر بنا زمانہ وہ تجھ میں آرام پا رہے ہیں
ہیں جیتے جی کے یہ سارے جھگڑے مچی جو آنکھیں تمام چھوٹے
کریم جلوہ وہاں دکھانا جہاں کہ سب منہ چھپا رہے ہیں
جو قبر میں اپنی ان کو پاؤں پکڑ کے دامن مچل ہی جاؤں
جو دل میں رہ کے چھپے تھے مجھ سے وہ آج جلوہ دکھا رہے ہیں
نکیروں پہچانتا ہوں ان کو یہ میرے آقا یہ میرے داتا
مگر تم ان سے تو اتنا پوچھو یہ مجھ کو اپنا بتا رہے ہیں
خدا کے وہ ہیں خدائی ان کی رب ان کا مولا وہ سب کے آقا
نہیں خدا تک رسائی ان کی جو ان سے نا آشنا رہے ہیں
تمام دنیا ہے مِلک جن کی ہے جَو کی روٹی خوراک ان کی
کبھی کھجوروں پر ہے گزارا کبھی چھوارے ہی کھا رہے ہیں
پھنسا ہے بحرِ الم میں بیڑا پئے خدا نا خدا سہارا
اکیلا سالکؔ ہیں سب مخالف ہمومِ دنیا ستا رہے ہیں
حضور ﷺ آپ بنائیں تو بات بنتی ہے
حضورﷺ در پہ بلائیں تو بات بنتی ہے
حضور ﷺ میری خطاوں کا کچھ شمار نہیں
حضورﷺ روضہ دکھائیں تو بات بنتی ہے
حضورﷺ چاروں طرف سے دکھوں نے گھیرا ہے
حضور مجھ کو بچائیں تو بات بنتی ہے
حضورﷺ آپ کی نسبت ہے میرا سرمایہ
حضورﷺ مہر لگائیں تو بات بنتی ہے
حضورﷺ آپ کی نظر کرم رہے مجھ پر
حضور غم نہ ستائیں تو بات بنتی ہے
حضورﷺ شوق بہت ہیں مجھے زیارت کے
حضورﷺ خواب میں آئیں تو بات بنتی ہے.
مدینہ چھوڑ آئے ہیں مدینہ چھوڑ آئے ہیں
مدینہ چھوڑ آئے ہیں مدینہ چھوڑ آئے ہیں
مدینہ چھوڑ آئے اپنی دنیا چھوڑ آئے ہیں
ہمارے پاس جنتا تھا اثاثہ چھوڑ آئے ہیں
خدا کا گھر بھی چھوٹا ہے نبی کا آستانہ بھی
لگا ہے دوہرا غم آقا مدینہ چھوڑ آئے ہیں
ابھی تک دل وہی پر ہے ابھی تک جاں وہی پر ہے
دل و جان کو وہاں روتا بلکتا چھوڑ ائے ہیں
ابھی تک یاد آتی ہے مزارِ حمزہ کی رونق
بھلا کیو سیدالشہدا کا خطہ چھوڑ آئے ہیں
مدینے کے در و دیوار رستے سب مہکتے ہیں
ذرا سا عطر لے کر مشک نافہ چھوڑ آئے ہیں
خدا جانے وہ کیسی نور اور کرنوں کی بستی تھی
اندھیرا ہے یہاں پر ہم اجالا چھوڑ آئے ہیں
جہاں سے ساری دنیا میں اجاگرؔ فیض جاری ہے
بقیعِ پاک میں زہرہ کا روضہ چھوڑ آئے ہیں
#naatshareef #naat2023 #madina #ujagar #lyrics #tearful
نعتیہ کلام : پیر سید نفیس الحسینی رحمتہ اللہ
اے رسولِ امیں ﷺخاتم المرسلیں ﷺ تجھ ساﷺ کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں
ہے عقیدہ یہ اپنا بہ صدق و یقیں تجھ ساﷺ کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں
دستِ قدرت نے ایسا بنایا تجھےﷺ جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھےﷺ
اے ازل کے حسیںﷺ اے ابد کے حسیںﷺ تجھ ساﷺ کوئی نہیں تجھ ساﷺ کوئی نہیں
بزم کونین پہلے سجائی گئی پھر تیری ذاتﷺ منظر پہ لائی گئی
سید الاولیں ﷺسید الا آخریںﷺ تجھ سا ﷺکوئی نہیں تجھ ساﷺ کوئی نہیں
تیرا ﷺسکّہ رواں کُل جہاں میں ہوا اس زمیں میں ہوا آسماں میں ہوا
کیا عرب کیا عجم سب ہے زیر نگیں تجھ سا ﷺکوئی نہیں تجھ ساﷺ کوئی نہیں
تیرے ﷺانداز میں وسعتیں فرش کی تیری ﷺپرواز میں رفعتیں عرش کی
تیرےﷺ انفاس میں خلد کی یاسمیں تجھ ساﷺ کوئی نہیں تجھ سا ﷺکوئی نہیں
سدرة المنتہٰی رہ گزر میں تیری ﷺ قابِ قوسین گردِ سفر میں تیریﷺ
توﷺ ہے حق کے قریں حق ہے تیرےﷺ قریں تجھ ساﷺ کوئی نہیں تجھ سا ﷺکوئی نہیں
کہکشاں ضو ترےﷺ سرمدی تاج کی زلف تاباں حسیں رات معراج کی
لیلۃ القدر تیری منور جبیں تجھ ساﷺ کوئی نہیں تجھ سا ﷺکوئی نہیں
مصطفیٰﷺ مجتبیٰﷺ تیری مدح و ثنا میرے بس میں نہیں دسترس میں نہیں
دل کو ہمت نہیں لب کو یارا نہیں تجھ سا ﷺکوئی نہیں تجھ سا ﷺکوئی نہیں
کوئی بتلائے کیسے سراپا لکھوں کوئی ہے وہ کہ میں جس کو تجھ سا ﷺکہوں
توبہ توبہ نہیں کوئی تجھ ساﷺ نہیں تجھ ساﷺ کوئی نہیں تجھ سا ﷺکوئی نہیں
چار یاروں کی شان جلی ہے بھلی ہیں یہ صدیق فاروق و عثماں علی
شاہدِ عدل ہیں یہ تیرے ﷺجانشیں تجھ ساﷺ کوئی نہیں تجھ ساﷺ کوئی نہیں
اے سراپا نفیس انفسِ دوجہاں ﷺسرور دلبراں دلبرِ عاشقاںﷺ
ڈھونڈتی ہے تجھے ﷺمیری جان حزیں تجھ سا ﷺکوئی نہیں تجھ ساﷺ کوئی نہیں
طیبہ کے جانے والے جا کر بڑے ادب سے
میرا بھی قصۂ غم کہنا شہِ عرب ﷺ سے
کہنا کہ شاہِ عالم ، اِک رنج و غم کا مارا
دونوں جہاں میں جس کا ہیں آپ ہی سہارا
حالاتِ پُر الم سے اِس دم گزر رہا ہے
اور کانپتے لبوں سے فریاد کر رہا ہے
بارِ گناہ اپنا ہے دوش پر اٹھاۓ
کوئی نہیں ہے ایسا جو پوچھنے کو آۓ
بھٹکا ہوا مسافر منزل کو ڈھونڈتا ہے
تاریکیوں میں ماہِ کامل کو ڈھونڈتا ہے
سینے میں ہے اندھیرا ، دل ہے سیاہ خانہ
یہ ہےمیری کہانی سرکار ﷺ کو سنانا
کہنا میرے نبی سے محروم ہوں خوشی سے
سر پر اک ابرِ غم ہے اشکوں سے آنکھ نم ہے
پامالِ زندگی ہوں سر کار امتی ہوں
امت کے رہنما ہو کچھ عرضِ حال سن لو
فریاد کر رہا ہوں میں دل فگار کب سے
میرا بھی قصئہ غم کہنا شہِ عرب سے
کہنا کہ کھا رہا ہوں میں ٹھوکریں جہاں
تم ہی بتاؤ آقا جاؤں بھلا کہاں میں
محسوس کر رہا ہوں دنیا ہے ایک دھوکہ
مطلب کے یار سب ہیں کوئی نہیں کسی کا
کس کو میں اپنا جانوں کس کا میں لوں سہارا
مجھ کو تو میرے آقا ہے آسرا تمہارا
تم ہی میری سنو گے تم ہی کرم کرو گے
دونوں جہاں میں تم ہی میرا بھرم رکھو گے
تم کو خدا کی قربت حاصل ہے میرے آقا
بگڑی میری بنانا ہے کام آپ ہی کا
تم ہو شاہِ دوعالم میں اک نصیبِ برہم
تم بےکسوں کے والی میں بے نوا سوالی
تم عاصیوں کا یارا میں گردشوں کا مارا
رحمت ہو تم سراپا ۔میں پتلا اک خطا کا
ہوں شرمسار اپنے اعمال کے سبب سے
میرا بھی قصئہ غم کہنا شہِ عرب سے
طیبہ کے جانے والے ۔۔
اے عازمِ مدینہ جا کر نبی سے کہنا
سوزِ غمِ جدائی سے جل رہا ہے سینہ
کہنا کہ بڑھ رہی ہے اب دل کی اضطرابی
قدموں سے دور ہوں میں قسمت کی ہے خرابی
کہنا کہ دل میں میرے ارماں بھرے ہوئے ہیں
کہنا کہ حسرتوں کے نشتر چبھے ہوئے ہیں
ہے آرزو یہ دل کی میں بھی مدینے آؤں
سلطانِ دوجہاں کو سب داغِ دل دکھاؤں
چوموں میں راستے سب طیبہ کی ہر گلی کے
یونہی گزار دوں میں ایام زندگی کے
پھولوں پہ جاں نثاروں کانٹوں پہ دل کو واروں
زروں کو دوں سلامی در کی کروں غلامی
دیوارو در کو چوموں چوکھٹ پہ سر کو رکھ دوں
روضے کو دیکھ کر میں روتا رہوں برابر
وہ کمالِ حُسنِ حضور ﷺ ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانیِ دل و جاں نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک ’نہیں‘ کہ وہ ہاں نہیں
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
کرے مصطفیٰ ﷺ کی اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جرأتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی! ارے ہاں نہیں، ارے ہاں نہیں
تِرے آگےیوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منھ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہہ دو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں
یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نکو وہ نِکوئی کی بھی ہے آبرو
مگر اے مدینے کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں
ہے انھیں کے نور سے سب عیاں ہے انھیں کے جلوے میں سب نہاں
بنے صبح تابشِ مہر سے رہے پیشِ مہر یہ جاں نہیں
وہی نورِ حق وہی ظلِّ رب ہے انھیں سے سب ہے انھیں کا سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ﷺ ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر
ملکوت و مُلک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں
تِرا قد تو نادرِ دہر ہے کوئی مثل ہو تو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سرو چماں نہیں
نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا بنی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں
کروں مدحِ اہلِ دُوَل رضؔا پڑے اس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم ﷺ کا مِرا دین پارۂ ناں نہیں